کافی دنوں سے میں ایک کشمکش کا شکار ہوں پتہ نہیں میں صحیح ہوں یا غلط اس کا فیصلہ قارئین کریں گے روز مرہ کے استعمال کی کافی اشیاء ایسی ہیں جن پر اسلامی نام درج ہوتے ہیں ہم دانستہ یا نادانستہ ان اشیاء کو کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیتے ہیں حالانکہ ہمیں پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام، محمدﷺ کے نام، اہل بیعتؓ کے نام، اصحابہ کرامؓ کے نام بھی نظر آنے لگے ہیں۔ مٹھائی لینے جائیں تو ان دکانوں کے اکثر نام اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں پر ہوتے ہیں اور مٹھائی کے ڈبوں اور تھیلوں پر یہی نام درج ہوتے ہیں جنہیں ہم کوڑے کے ڈبوں میں پھینک دیتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ کے نام سے بھی بہت سی دکانیں منسوب ہیں ٹھیک ہے ہم عقیدت و برکت کے طور پر کرتے ہیں لیکن کیا ہمارے دل اتنے مردہ ہیں کہ ہم اتنی محترم ہستیوں کے ناموں کی بھی تعظیم نہیں کرتے۔
اسی طرح میڈیا میں بے شک اسلامی پروگرام معلومات میں اضافے کیلئے نشر کیے جاتے ہیں لیکن کبھی کسی نے غور کیا کہ نیچے سلائیڈ پر آیات اور محترم ہستیوں کے نام چل رہے ہوتے اور اور لوگوں کی ٹانگوں میں یہ نام آرہے ہوتے ہیں ۔ہمارے دل و ضمیر اتنے مردہ ہوچکے ہیں یا ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ہم کیا اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو سکھائیں گے؟ اسی طرح سکولوں میں جو بستے بچے لیکر جاتے ہیں وہ ایسے بنائے گئے ہیں کہ سکینڈری کلاسوں کے طلباء کی ٹانگوں میں آتے ہیں اور وہ تعلیم کو ٹانگوں میں روندھاتے روز جاتے ہیں۔ اس میں اسلامی کتابیں بھی ہوتی ہیں جو پائو میں آتی ہیں یہ روز مرہ کی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر لوگ کم غور کرتے ہیں یا اگر کرتے ہیں تو کوئی ٹوکتا نہیں۔جو قومیں اپنے مذہب اور مذہبی رہنمائوں کی تعظیم نہیں کرتیں تاریخ گواہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ عذاب مسلط کردیتا ہے مثلاً ان پر سیلاب اور زلزلے آتے ہیں، افراتفری، نفسا نفسی کا ماحول ہوتا ہے ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہیں سنبھل جائیں شاید میں غلط ہوں اسکا فیصلہ قارئین کریں گے۔ (نوشین مسعود)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں